ایک بار کسی تھانے میں مشارے کا اہتمام کیا گیا۔ کسی وجہ سے صدر مشاعرہ تشریف نہ لاسکے تو منتظم مشاعرہ نے شوکت تھانوی سے کرسی صدارت پر تشوا لا س ت ر ب شوکت تھانوی نے مائک پر آکر کہا: ” مجھے معلوم تھا کہ تھانے میں آپ کسی تھانوی ہی کو صدر بنائیں گے۔ ”
یہ سننا تھا کہ ساری محفل زعفران زار بن گئی۔
…………..
ایک مرتبہ ایک مشاعرے کی نظامت شوکت تھانوی کے ذمے تھی۔ جگر مراد آبادی صدر شاعر تھے۔ ایک صاحب, جو شاعر نہ تھے, جگر کے بالکل, چہرہ چہرہ اس طرح بیٹھ گئے کہ محفل کو اور خود کو ان طرح بیٹھنا صاحب سے گزارش کی اسٹیج پر عین جگر صاحب کے بالمقابل چہرہ بہ چہرہ ہوکر نہ بیٹھیں.
ان صاحب نے ترش رو ہوکر جواب دیا:
” نہیں! میں تو یہیں بیٹھوں گا۔ مجھے کوئی نہیں اٹھا سکتا۔ ”
شوکت تھانوی نے کہا:
” جی بسم اللہ! آپ یہیں تشریف رکھیے۔ میں نے تو صرف اس لیے منع کیا تھا کہ آپ کو دیکھ کر ” ہز ماسٹرز وائس ” کا ٹریڈ میٹھارک یاد آجا تا کےیٹھاو ا اتتا ھ مہے ےنپاب ہے ، میں ناو ب
شوکت صاحب کا یہ فقرہ سنتے ہی حاضرین کے قہقہوں سے پورا ہال لگا اور صاحب بے حد شرمندہ اگئے ب سےااسیمہ ہہوکس لال مہ ہکوکر ل
…………..
ایک دفعہ شوکت تھانوی سخت بیمار پڑے ، یہاں تک کہ اُن کے سر کے بال جھڑ گئے۔ دوست احباب اُن کی عیادت کو پہنچے اور بات چیت کے دوران ، اُن کے گنجے سر بھی دیکھتے رہے ، سب کو مےوع سب کو مےوع ب نیکھ تکر شلو ب نیکھ تکر شلو جب نیکھ تکر ھد تکر
” ملک الموت آئے تھے ، صورت دیکھ کر ترس آگیا ، بس صرف سر پر ایک چپت رسید کرکے چلے گئے۔ ”
…………..
پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار ایس پی سنگھا کے گیارہ بچوں کے نام کا آخری حصہ ” سنگھا ” تھا۔ جب اُن کے ہاں بارہواں لڑکا پیدا ہوا تو شوکت تھانوی سے کیا کہ اس کا کیا نام اس پر شوکت صاحاااا اوشت صاحااااااا ےوکت صاحب انے بے سخا ‘سا’ م سا ‘آپ سا’ م سر ‘
…………..
ایک ناشر نے کتابوں کے نئے گاہک سے شوکت تھانوی کا تعارف کراتے ہوئے کہا: ” آپ جس شخص کا ناول خرید رہے وہ یہی ذات شریف ہیں, لیکن چہرے سے جتنے بے و قوف معلوم ہوتے ہیں, ہیں نہیں. ‘ ‘
شوکت تھانوی نے فوراً کہا: ” جناب مجھ میں اور میرے ناشر میں یہی بڑافرق ہے۔ یہ جتنے بے و قوف ہیں ، چہرے سے معلوم نہیں ہوتے۔ ”
…………..
شوکت تھانوی نے جب شعر کہنے شروع کیے تھے ، اس وقت نو عمر تھے۔ بڑی کوشش کے بعد وہ اپنی غزل رسالہ ” ترچھی نظر ” میں چھپوانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس غزل کا ایک شعر یہ بھی تھا:
ہمیشہ غیر کی عزت ، تری محفل میں ہوتی
ترے کوچے میں جاکر ہم ذلیل و خوار ہوتے ہیں
شوکت تھانوی کے والد کی نظر جب اس شعر پر تو اُن کی والدہ کو غصے یہ شعر سنا کر کہنے لگے: ” یہ اوارہ گمیںو آخر گمیںد آخر مد ر
شوکت تھانوی کی والدہ ، اُن کے والد کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے صفائی پیش کرتے ہوئے بولیں: ” بچہ ہے اا ا م