” ٹیکسلا ” انسانی تاریخ کا عظیم عالمی ثقافتی ورثہ


راولپنڈی سے 22 میل دور ، شمال مغرب کی جانب ایک قدیم شہر ‘ٹیکسلا’آباد تھا۔ 326 ق م میں سکندر اعظم نے اس شہر پر قبضہ کیا اور یہاں پانچ دن ٹھہرا۔ یہیں راجا امبھی نے سکندر کی اطاعت قبول کی ، جس کے بعد سکندر راجا پورس سے لڑنے کے لیے جہلم کے کنارے پہنچا۔ باختر کے یونانی حکمران دیمریس نے 190 ق م میں گندھارا کا علاقہ فتح کرکے ٹیکسلا کو اپنا پایۂ تخت بنایا۔ مہاراجا اشوک اعظم کے عہد میں بھی اس شہر کی رونقیں پورے عروج پر تھیں اور یہ بدھ مت تعلیم کا مرکز تھا۔

ساتویں صدی عیسوی میں مشہور چینی سیاح ہیون سانگ یہاں آیا تھا۔ اس نے اپنے سفر نامے میں اس شہر کی عظمت و شوکت کا ذکر کیا ہے۔ یہاں گوتھک اسٹائل کا ایک عجائب گھر ہے ، جس میں پانچویں مسیح کے گندھارا آرٹ کے دس ہزاار سکے (جن میںاار کے (جن میںد بع ونور کھےدور دور دور تدوفر و) ٹیکسلا میں زمانہ قبل ازمسیح کی عظیم باقیات یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔

'' ٹیکسلا '' انسانی تاریخ کا عظیم عالمی ثقافتی ورثہ

مختلف نام

ٹیکسلا کا قدیم شہر دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے درمیانی علاقے میں واقع ہے۔ سنسکرت میں یہ تکشاسلا اور مقامی طور پر تاکاسلہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یونانیوں اور رومیوں نے اسے ٹیکسلا کہا۔ یہ شہر زمانہ قدیم کے تین اہم تجارتی راستوں کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے ایک بڑا تجارتی مرکز تھا۔ جنوبی ہند ، مغربی اور وسطی ایشیائی تجارتی راستے یہیں پر ملتے تھے۔

قدیم جین مندر

قدیم یورپی اقوام سکندر اعظم کے ہندوستان پر حملے کرنے کے وقت سے ٹیکسلا کے نام سے واقف تھیں۔ چھٹی صدی قبل از مسیح میں ٹیکسلا ایران کا ایک صوبہ تھا۔ بعد کی صدیوں میں یہ شہر کم از کم سات ادوار میں مختلف نسلوں کے شاہی خاندانوں کی حکمرانی میں رہا۔

بازار جو اب کھنڈر ہیں

ٹیکسلا کی قدیم تہذیب کی باقیات کی تلاش کے لیے مرتبہ برطانوی نو آبادیاتی دور میں آرکی الوجیکل سکیوے ھیج انڈی 19ل سو ھیا،و ڈی 34 پھر پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں بھی بہت سے مشہور یورپی اور پاکستانی ماہرین آثار قدیمہ یہاں ۔دئیا کر اس وقت جہاں خشک گھاس اور پتھر نظر آ تے ہیں ، وہاں صدیوں پہلے بھرے بازاروں میں کی چہل پہل ہوا کرتی تھی۔

اسٹوپے اور خانقاہیں

وادی ٹیکسلا میں کھدائی کے نتیجے میں تقریبا دو درجن سے زیادہ اسٹوپے اور خانقاہیں دریافت ہو چکی ہیں۔ ان میں دھرما راجیکا ، جولیاں ، موہڑہ مرادو ، پی لاں ، گڑی ، بھمالا ، جنال ، جناں والی بلادو اال بادو لم لم کلم کلم کلم لہیںم لہیںم کلم ہیںلم ہیںلم کلم للم للم لم للم الم لم لم لور ، ن بلڑم

قدیم ٹیکسلا کی یونیورسٹی

قدیم ٹیکسلا شہر کے کھنڈرات کے آخر میں شہزادہ اسٹوپا کی جانب ایک مرکزی اور مقام ایسا بھی ہے ، پاکوکا

شہزادہ کنالہ کا اسٹوپا

ٹیکسلا کی قدیم یونیورسٹی سے کچھ دور شہزادہ کنالہ کا اسٹوپا ہے۔ اس اسٹوپے کے قریب کبھی ایک شاندار عمارت قائم تھی۔ اب وہاں صرف اس عمارت کی پتھریلی باقیات ہی رہ گئی ہیں۔ اس مقام اور اس کے قرب و جوار میں کھدائی سے بھی ماہرین بہت سے قدیم سکوں کے علاوہ مٹی ا۔ملے کے نھے ترت

نازک لیکن تاحال محفوظ

ماہرین آثار قدیمہ کو موہڑہ مرادو کے ایوان مجلس کے نمبر نمبر سے ملنے والا اسٹاوپا ، مٹی کا بجاوا ، مٹی ا بجبوا ہموم دموے کےیںبوے کےیں بوت کےموم تمبوے کےیں بوےد الوان ہےمٹیوت د. اسی خانقاہ سے ماہرین کو چونے مٹی کے بنے ہوئے مجسمے بھی ملے ہیں۔ موہڑہ مرادو سے ملنے والے دیگر نوادرات میں کھانے پینے کے برتن ، گھریلو کا سامان ، مختلف ازار اون بار ب

ٹیکسلا میوزیم

ٹیکسلا میوزیم پاکستان کے خوبصورت ترین عجائب گھروں میں سے ایک ہے۔ ہری پور روڈ پر واقع اس میوزیم کا نقشہ لاہور کے میو اسکول آف آرٹس (موجودہ نیشنل کالج آف آرٹاا الج آف آرٹس اس کی بنیاد برٹش انڈیا کے وائسرائے لارڈ چیمسفورڈ نے رکھی تھی۔ اس میوزیم میں ٹیکسلا سے دریافت شدہ 700 سے زائد نوادرات محفوظ ہیں لیکن عجائب گھر کے اندر فوٹوگرافی کی اجا نہیں ہے اجا نز ہیں

سرکپ

سِرکپ شہر کی تاریخی باقیات ٹیکسلا میوزیم سے قریب دو کلومیٹرکے فاصلے پر ہیں۔ دوسری صدی قبل ازمسیح میں باختر کے یونانی ٹیکسلا پر حملہ آور ہوئے موریہ سلطنت ختم کر کے انہ ہااا ر کے اہو ۔اب ا م م م روحکر یہ شہر شطرنج کی بساط کی طرز پر آباد کیا گیا تھا۔ سیدھی گلیوں اور بازار کے باعث اس کے کھنڈرات بھی بہت منفرد ہیں۔ یہ شہر ایک ایسی فصیل کے اندر آباد تھا ، جس میں چار دروازے تھے۔

موہڑہ مرادو

ٹیکسلا میوزیم سے مشرق کی سمت قریب پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر خانقاہ موہڑہ مرادو واقع ہے۔ یہ بدھ مت عبادت گاہ ، مرکزی اسٹوپا اور خانقاہ کی باقیات پر مشتمل جہاں پُجاریوں کےا رہائشی مخورے ہا اوا خمخوغ اوا موغ اوغائشی خمخوغا لاوغا ممخوغ اوغا ممو اوغا ملوغ غاوکا مخوغر اوغا اوغر موغر اوغن کا برد باقیات اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ اس دور میں بھی کتنے تعمیراتی نظم و ضبط سے کام لیا گیا تھا۔

دو ہزار سال پرانی باقیات

وادی ٹیکسلا سے ملنے والی بدھ مت کی عبادت گاہوں کی زیادہ تر پہلی صدی عیسوی سے پانچویں صدی عکھیسوی تکتکے ر دھرما راجیکا اسٹوپا تیسری صدی عیسوی کے دور کا ہے ، جسے 1980 ء میں یونیسکو نے عالمی ثقافتی وکیرثے کی فہرست میں کی فہرست میں رست میں ان میں سے بہت سے تاریخی مقامات آج بھی حیران کن حد تک اچھی اور واضح حالت میں موجود ہیں۔




Supply hyperlink

About admin

Check Also

سونے ، چاندی اور تانبے کا شہر کھنڈرات میں کیسے تبدیل ہوا؟

فیصل میمن مٹی کے برتنوں کے ٹکڑے, ٹوٹی لال کے ظروف کر نگاہیں وادی سندھ …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *