محمد اسلام
لاک ڈائون کو کئی روز گزر تھے ایک ایک کھانے پینے کی تمام اشیا ختم رہی تھیں جو بھی پرائیوٹ اسکول ماہانہ تنخواہ پانے اشیائے بھلا ہے ذخیرہ قلیل آمدنی جمع شدہ معمولی رقم اونٹ میں زیرے مترادف ثابت ہوئی اس دوران اسکول سے رابطہ کیا تا کچھ رقم جائے مگر صاحب ملا دیکھیں سے دونوں رہے تھے خاص طور پر چھوٹے بیٹے کو دودھ کی سخت ضرورت تھی۔
میں سفید پوش آدمی ہوں اسی کبھی آگے ہاتھ پھیلایا بیوی راحیلہ کے مشورے پر سےرابط کیا انھوں نے کورونا وائرس گھر رہو تو کی مجھے جتنا دکھ اپنی سفید پوشی کا بھرم ٹوٹنے پر ہوا میں خوددار انسان ہوں اس صورت حال نے میرے اندر توڑ پھوڑ شروع کر دی۔
اس دوران چھوٹے بیٹے کی بھوک رونے پھر میری سے ٹکرائیں میں آبدیدہ ہو گیا سوچا دوسروں کے بچوں تعلیم دے عہدوں پر پہنچانے بچے انتظام ہے سے سوچ کر میں اضطرابی کیفیت میں لگا میں نے فیصلہ کرلیا میں اپنے بچے کو مرتا ہوا نہیں دیکھ لہذا میں دوران کسی سے میں چا کا مجھے اتارنا ہی پڑے گا.وقفہ ہوتے ہی میں بازار کی طرف گیا وہاں میں نے بہت سے گداگروں کو میں کسی کے سامنے پھیلا نے کی پارہا تھا کر شائد لوگ میرا حلیہ دیکھ مجھے بھیک بھی نہیں دے رہے تھے.
اسی تذبذب میں گئی گھنٹے گزر آیا سے بہتر ہے کسی دکان دار ادھار لے لوں میں نے دودھ فروش سے بیان کیا اور گرج کر بولا نہیں اور یہ آئے ہیں ادھار لینے ” .اس کے الفاظ میرے گو نج رہے تھے میں ریزہ کر بکھر رہا تھا, کے عالم میں ایسا ہی تھا جیسے کوئی طرف بوجھل قدموں سے رہا ہو ابھی گھر کے دروازے تک ہی پہنچا تھا بیوی کے رو نے کی آواز سنائی دی کر گھر میں داخل ہوا دیکھتا ہوں کہ وہ مردہ بچے پر بین کر رہی ہے.