عالمی یوم ماحولیات کی مرکزی تقریب پاکستان اس چین ، دیگر عالمی رہنمائوں بالخصوص انتونیو گ. اس سے پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں پر اس سطح کی توجہ نہیں گئی اور وطن عزیز میں ااس تبزیل اکوا لدیلم اجہوا لو ل اور اقو سے بیون دلع
اب یہ الگ بات کہ موجودہ کا کہ صرف صوبہ سرحد میں پانچ برس میں ارب لگائے اور اپوزیشن دعوے کو مسترد لیکن اطلاعات یہ بدلے میں کچھ غیر قرضوں کا طلبگار ہے تاکہ وہ تحفظ ماحولیات کیلئے اپنی کاوشیں جاری رکھے کہ پاکستان کی جانب سے اس کا اظہار پہلے خود وزیراعظم اپنے خطاب میں کرنا تھا لیکن یہ فیصلہ تبدیل ہوا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ 2023 تک ماحول کی بہتری کیلئے وہ ایک ارب ڈالر خرچ کرنا چاہتی ہے۔
جس کیلئے بھی ضروری ہوگا کہ اسے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے مدد ملے یا پھر واجب الادا قرضوں میں ریلیف۔ حکومتی ذرائع کے مطابق اب اس حوالے سے چار ممالک سے باضابطہ طور پر رابطہ بھی ہوا ہے۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ایسا ممکن ہے تو کا جواب ہے کہ ماضی میں ایسی کئی مثالیں مجوجود ہیں گ موت عن گ توت عن ت ت عن
مثلا صرف تعلیم کے شعبے میں پاکستان نے سے کروڑوں ڈالر معاف کرائے ہیں اسی نے گھروں اور لیکن ماحول کی تبدیلی کے شعبے میں پاکستان کے حوالے سے ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے.
اس حوالے سے 22 ترقی یافتہ ممالک کے ارکان پر مشتمل ” پیرس کلب ” جو پسماندہ اور ضرورتممہیں ممالک کر تقرضے فرس ر تقرضے فرالک کر تقرضے فر وہ ماحولیات کے لئے کئے جانے والے پاکستان کے اقدامات کے پیش نظر پاکستان کو قرض فراہم کو قرض۔ افا وا ب تلراد پاکستان جو اس وقت قرضوں کی دلدل میں پھنسا اور اس کی معیشت کو بے چیلنجز کا سامنا جس اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مارچ 2021 تک پاکستان کا کل بیرونی قرضہ 106 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے ماحولیاتی خدمات کے صلے میں حکومت بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں معافی کوئی بڑا ریلیف حاصل کر لیتی ہے تو اقدام کو پاکستان کیلئے ایک بڑی کامیابی سمجھا
قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس شروع ہو چکا ہے۔ وفاقی بجٹ 11 جون کو وزیر خزانہ شوکت ترین پیش کرینگے۔ بجٹ پیش کرنے تک اپوزیشن اور حکومت کی تمام سیاست اسی حوالے سے موضوع بحث رہے گی۔ جس کا آغاز ہو چکا ہے اپوزیشن نے سے پروگراموں میں بجٹ پیش ہی ناکام ، مسترد اسے آئی خزانہ ایم. محض آئی کا بجٹ پڑھنے کا ہوگا۔
حالانکہ حکومت کی پہلے سے طے شدہ حکمت عملی کے تحت موجودہ بجٹ میں عوام کو خاصا دینے کے منصوبے پاا عمل د کیار عمل در۔مد کیار عمل د مد جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے سمیت استعمال کی متعدد اشیا کی قیمتوں اعلان متوقع ہے کی جمہوری اور برقرار رکھتے کے مناظر بھی دہرائے جائیں گے دوسری طرف جوں جوں بجٹ نزدیک آرہا ہے اپوزیشن کے حکومت پر دبائو میں اضافہ ہورہا ہے.
اس حوالے سے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے خاصا جارحانہ انداز اختیار کیا ہوا ہے۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے پہلے وفاقی حکومت کی جانب سے کو پانی کی فراہمی کے حوالے سے موضاوع پر ” س۔ندھد کارڈ ” تکی پھر معیشت پر وزیراعظم کی جانب سے بہتری کے دعوئوں پر میں تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بقول مشکل وقت ئےتاا یل وقت کےتم گیا لیکن مشکل ا لیکن شک
بجٹ آئے گا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ بلاول بھٹو کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں احتساب کا نظام دوغلا ہے۔ وزیراعظم رائیونڈ کا ہو تو اسے سزا کے باوجود لندن بھیج دیا جاتا ہے۔ نواب شاہ کے صدر پر جھوٹا الزام بھی لگے تو ملک میں ہی قید ہوتا ہے۔
حالانکہ یہ بلاول بھٹو ہی تھے نے میں نواز شریف سے ملاقات کے بعد نہ ان نظریاتی ہونے کی سنائی تھی بلکہ وزیراعظم رہنے والے ملک بھیجے جانے کی بھی اور پھر یہ تاثر اب بھی پوری طرح موجود ہے کہ آصف زرداری کے پر زور مطالبے ان کے مقدمات سندھ کی عدالتوں میں منتقل کر دیئے گئے۔
پی ڈی ایم کے زعما الزام عائد کرتے ہیں ڈی ایم کی موجودہ صورتحال کی ہے جبکہ بہت کی جانب سے مزیل خزاہور ملخز اہور ی ہے بعض حوالوں سے یہ بجٹ خاصا دلچسپ اور خدشات سے بھرپور بھی ہوگا۔ کیونکہ ایوان میں حکومتی جماعت کی پہلے کم ہوگئی ہے ضمنی میں زیادہ کامیابیاں اپوزیشن کو اور پھر جوحکاو م ر جوحکااادحک محکواد موحکم داوحکم محکوحکاد
قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے پہلے روز ہی ایوان میں اپوزیشن کی بڑی جماعتوں پاکستان مسالم یگلیگ (ن) ںلیںوپ دوپ دوپ ں دور پا ان پیپلزدور پاظ ن ن پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے پہل کرتے ہوئے احسن اقبال کو کا ” ایک کاغذی عہدیدار ” اور بےد اختی ر قر جس پر مسلم لیگ (ن) نے ایوان سے واک آئوٹ کیا۔ صرف اس ایک واقعے سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بجٹ کی منظوری کے موقع پر کون کہاں کھڑا ہوگا؟