براعظم یورپ کا ایک اور اہم ملک ” نیدر لینڈز ” ہے ، جو ایک ایسی سرزمین ہے ، جہاں کئی نا۔مور تخاں کا وں ل ا وں دوسری جنگ عظیم میں اس ملک کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس عظیم اور تباہ کن جنگ کے بعد سے کر, عہد حاضر تک, جن ادیبوں ” شاندار ادیبوں ” میں شامل کیا گیا, ان حتمی تعداد تین ہے, نے جنگ عظیم کے بعد, مصائب سے گھرے ہوئے ملک, اپنی تخلیقات سے, معاشرے پر مثبت اثرات مرتب کیے اور دنیا بھر میں اپنے ملک کا عمدہ تعارف بھی ہوئے۔ ان تین میں سے ایک ادیب”ہیری مولیش ” تھے, جنہوں نے شاندار ادب تخلیق کیا اور نان فکشن تحریروں بھی غور و فکر کی نئی جہتیں کیں اور ان کو عام قاری لیے سہولت سے بیان کیا.
وہ ایک ادیب ہونے کے علاوہ ، ایک اچھے ڈراما نگار ، مضمون نویس اور فلسفیانہ فکر کے حامل تھے۔ انہوں نے بطور شاعر بھی حساس نظمیں تخلیق کیں۔ کی پیدائش 29 جولائی 1927 کی جبکہ 30 اکتوبر 2010 کو وفات پائی۔ ان کے والد آسٹریا و ہنگری نژاد تھے اور پہلی جنگ عظیم کے بعد ، ہجرت کر کے نیدر لینڈز میں آباد ہوئے تھے۔
ان کے والد جرمن بینک میں ملازم تھے, والدہ یہودی تھیں, وجہ سے, دوسری جنگ عظیم کے دوران, کے خاندان کو کافی سہنا حتی کہ والد کو قیدوبند کی صعوبتوں سامنا بھی کرنا ان کے والدین تو کسی طرح نازی کیمپوں سے بچ نکلے, البتہ دادی گیس چیمبرز میں ہلاک ہوئیں۔ یہی وجہ ہے ، ان کی تحریروں میں ، ان کے کرداروں میں پہلی جنگ عظیم اور بالخصوص دوس۔ری عظیم کے اثرات اوضح ےر پد دکھ ےر پر د 1971 میں ان کی شادی ہوئی ، جن سے دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔
” ہیری مولیش ” نے 1952 میں لکھنے کی ابتدا کی۔ ان کی پہلی تصنیف ایک ناول تھا, اس کے ایک ناولا لکھا اور کچھ مختصر کہانیاں پھر یہ سلسلہ دراز گیا, انہوں نے ناول لکھے, ڈراما نگاری کرتے ہوئے درجنوں ڈرامائی کہانیاں تخلیق کیں, مضامین کے ذریعے بھی, زندگی بھر اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے۔ ان کی لکھی ہوئی کہانیوں کے کردار ہوں یا فکشن تحریروں کے ذریعے ، خیالات کا ان سب میں بات تھی کہ
انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے تناظر میں ہی زبان میں ایک ناول”دی اسالٹ ” لکھا ، جس کے لغوی معنی۔ حملہ ” اگلے برس انگریزی میں بھی اس ناول کا ترجمہ ہوگیا۔ اس کے بعد ان کی شہرت اپنے ملک دنیا گئی, ان کی نگارشات کے تیس میں تراجم ہوئے, کا نوبیل انعام ادب کے لیے انعام تو نہ ملا, ان کے لکھے ہوئے اسی ناول پر فلم بنائی گئی, جس کی نمائش اس فلم نے گولڈن گلوب اور آسکر ایوارڈ جیسے کے مقبول اعزازات اپنے نام کرلیے۔ ان کے ایک اور ناول“جنت کی دریافت ” کی اشاعت 1992 میں ہوئی ، اس کو نیدر لینڈز میں ، ڈچ زبان کا عظیاا تن نن نرد ول اس پر بھی فلم بنائی گئی۔
وہ ایک حساس انسان تھے, زندگی بیانیے کو میں ڈھالنا تو انہوں نے براہ راست اور زندگی کو بھی اپنی خودنوشت صورت میں بیان اور اپنے خاندان بالخصوص والد میں بھی کتابیں یہودی بھی ان کی تحریروں کا مرکز رہے اور پر بھی انہوں نے خوب توجہ کی, غرض کہ میں کچھ محسوس کیا ، اس بہت مناسب انداز رقم کر ان کی رحلت پر ملک کے وزیر اعظم س ور اعظم سمت دیگااااے سیت فل سا ست سید ب سیت سی ف انہیں اپنے ملک سمیت دیگر کئی بڑے عالمی و ادبی اعزازات بھی پیش کیے گئے۔ موجودہ ڈچ ادب پر ان کی تخلیقات کا گہرا اثر دکھائی دیتا ہے۔
” ہیری مولیش ” کے ناول”دی اسالٹ ” کو ہم نے یہاں منتخب کیا ہے ، جس پر بنی فلم نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ اس ناول کا مرکزی خیال ، دوسری جنگ عظیم کے بارے میں ہی ہے۔ ایک ایسے خاندان کو دکھایا گیا ہے ، جس آور افراد کو مار دیا جاتا ہے ، ایک کمسن اگیا ۔ڑک ، اااا ا د یں ایک خوفناک رات کا بیان ، جس میں زندگی موت کی کشمکش منعکس ہے۔ اس ناول کی کہانی اتنی پر اثر تھی کہ اس کو پر فلم بنانے کے لیے منتخب کرلیا گیا ، کامیابی ے۔ ہ پ
اس ناول کی اشاعت کے بعد ، صرف دو لاکھ کاپیاں تو نیدرلینڈز میں فروخت ہوگئیں اور دیگرزبانوں ناول کی ہر ت اس کے عو اس معروف ڈچ فلم ساز ” فونس ریڈی میکرز ” نے اس پر شاندار فلم بنائی, جس کا اسکرین پلے”جیراڈ سوئٹ مین ” نے لکھا, جبکہ ڈچ اداکاروں نے اپنی اداکاری سے فلم بینوں کو اپنی انگلیاں دانتوں تلے دبانے مجبور کر دیا ، اس قدر ڈرامائی حقیقت نگاری کا مظاہرہ کیا ، خاص طور پر اس کمسن اداکاری نے دل کو چھولینے کیوالی ا دکاری کیوالی دکاری یہ فلم یوٹیوب پر دستیاب ہے ، قارئین چاہیں تو دیکھ بھی سکتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم میں کس طرح عام لوگوں پر قیامت ٹوٹ پڑی ، یہ ناول اور فلم اس عام آدمی کا دلکش بیان ہے۔ ناول لکھ کر عام آدمی تک اپنے احساس ادیب پر جب فلم بنی, تو اس اظہاریہ پوری دنیا پہنچ چاہے ناول پھر فلم, دونوں کو زندہ رکھا جاسکتا, اس کی مثال یہ ناول اور فلم ہیں, جن کی شہرت اب بھی قائم ہے.