شہر کراچی میں کلفٹن کا علاقہ امراء کا مسکن کہلاتا ہے۔ نہ صرف آج بلکہ تقسیم ہند سے پہلے بھی یہاں شہر کے امیرترین افراد آباد تھے۔ اس علاقے میں آج بھی ایک محل نما عمارت اطراف بسنے اور وہاں سے گزرنے والوں کے توجہ کا مرکز بنی رہتی جس کا نام موہتہ پیلس جبکہ جبکہ جبکہ ہندی و عربی طرز تعمیر کایہ شاہکار نامور تاجراور مخیر شخصیت شیورتن چندرا رتن موہتہ نے جودھ پور سے منگوائے گئے زرد, عنابی اور گزری پتھروں اتنا حسین امتزاج پیدا کیا گیا کی تعمیر کو آج ایک صدی ہونے کو ہے کی شان و شوکت میں ذرا سی بھی ہوئی تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے حصے میں آنے والا موہتہ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ جناح کو رہائش کے لیے دے تھا ، اسی وجہ سے یہ ‘قصر’ بھی کہلایا۔ محترمہ فاطمہ جناح اپنے انتقال تک یہیں مقیم رہیں۔ ان کی رحلت کےبعد یہ عمارت محترمہ شیریں جناح کی میں میں جو اسے کالج کا درجہ چاہتی ھیںا درجہ چاتی تھیں مگر ان کےوح مر ال وح الم تمن کے بعود س تمس تر
محبت کی نشانی کی تعمیر
شیو رتن نے موہتہ پیلس کیوں بنوایا ، یہ بھی ایک دل چسپ اور محبت بھری کہانی ہے۔ بالکل اُسی طرح کی کہانی جس طرح شاہ جہاں نے اپنی محبوب ملکہ ممتاز کی یاد میں ‘تاج محل’ تھعمیر کرو یا تن شاہ جہاں نے تو ممتاز کے مرنے کے بعد تاج محل تعمیر کروایا تھا لیکن موہتہ نے عمارت پنی بیبا کن ھیمرنے بیوے ن ترنے ن تو ن اب ہندوستان کے معروف نقشہ ساز آغا احمد حسین نے جے پور سے آکر اس عمارت کا ڈیزائن تیار کیا تھا۔ انہوں نے جے پور فنِ تعمیر کے زیراثر اینگلو مغل انداز میں پیلے ، گزری اور گلابی جودھ پتھر ںوں کے ام تزا لع اسے تعمیر کرنے کا مقصد کچھ اس طرح بتایا جاتا تھا کہ شیورتن موہتہ کی بیوی ایک مہلک بیماری میں مبتا ہوگئی ت ڈاکٹروں نے علاج تجویز کیا کہ اگر مریضہ کو مسلسل سمندر کی تازہ ہوا میں رکھا جائے تو وہ بالکل صحتیاب ہوسکتی ہیں وسکتی ہیں چنانچہ شیورتن موہتہ نے یہ شاندار محل نما بنگلہ کلفٹن میں تعمیرکروایا۔ گذشتہ صدی میں تعمیر کی جانے والی یہ خوبصورت اور دل کش عمارت 18,500 اسکوائر فٹ رقبے پر محیط ہے۔
عمارتی رقبہ اور ڈیزائن
تقسیمِ ہند سے قبل اور بعد میں بھی کلفٹن کے علاقے میں اتنی وسیع و عریض عمارت تعمیر نہیں ہوئی۔ یہ تاریخی عمارت دو منزلوں پر مشتمل ہےاور دونوں منزلوں پر کُل ملا کر 16 کمرے بنائے گئے ہیں۔ پیلس میں داخل ہوتے وقت سب سے پہلے آپ کی نظر بیرونی پڑتی ہے جسے خوبصورت ، رنگارنگ اور نفیس ںاگیااا م م ور۔ کیوار بور ر م ر یہ منظر ایسا جاذب نظر ہے کہ کچھ ساعتوں کے لیے کوئی بھی شخص اسے دیکھ کر مبہوت ہوجاتا ہے۔ نچلی منزل پر کمرے آسائش اور رہائش کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہیں۔ کمرے دیکھ کر یہ بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ فردِ واحد کے لیے ان کی تعمیر کی گئی تھی۔ یہ تو تھا نچلی منزل کا ذکر ، اس کی پہلی منزل بھی اپنی مثال آپ ہے۔ دور حاضر میں چونکہ اس عمارت ارد بلند و ہیں تو اب یہاں سے ممکن نہیںلیکن اس عمارت چھت پر جا سمندر کا نظارہ گو بلند و بالا رہائشی عمارتوں موہتہ جانب ہے لیکن جس وقت یہ عمارت وقت اس کے نہ صرف پر بیٹھ کر سمندر کی لہروں کا نظارہ بھی کرتے تھے۔ چھت پر تعمیر کیے گئے گنبد کے اردگرد بنایا جانے والا خوش منظر احاطہ مکینوں کو شدید سے محفوظ ۔انےا کے لیے تع ر تع مرکزی گنبد کے علاوہ عمارت کے اطراف پانچ نفیس گنبد عمارت کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ عمارت کی چھت پر کیا جانے والا کام نقاشوں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ نقاشی کے ذ ریعے خوبصورت بیل بوٹوں کو منفرد انداز میں تر تیب دیا گیا ہے۔ ان میں مختلف انداز کے رنگ استعمال کیے گئے ہیں ، جس میں آبی رنگ بھی شامل ہے۔ عمارت کے اطراف ایک خوبصورت اور وسیع باغیچہ بھی موجود ہے۔ اس کے اندر ایک میل لمبی سرنگ ہے جو مندر سے جاکر ملتی یہ عمارت اپنی پراسرار کہانیوں کی وجہ ۔سے بھی مشہور ۔ے بھی مشہور۔
1995 ء میں حکومتِ سندھ کے محکمۂ ثقافت کو یہ پیلس اور اسے بحال کرکے میوزیم میں تبدیل کرنے کے لیے گئے تھے۔ محکمۂ ثقافت نے 61 لاکھ روپے عمارت خریدنے کے لیے ادا کیے جبکہ باقی کی رقم عمارت کی تزئین و آرائش پر صرف کی۔ پیلس کی دیکھ بھال کے لیے ایک خودمختار بورڈ آف ٹرسٹینر بھی بنایا گیا۔ عمارت کی بحالی کے دوران اسے اس کے اصلی رنگ میں ڈھالنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ طویل عرصے سے جمی مٹی کی تہوں اور کالک کو صاف کیا گیا ، تاکہ گلابی پتھر کا اصلی روپ نمایاں ہوسکے۔