قومی سیاست اگرچہ اب بھی بے یقینی کا اپوزیشن پر لفظی گولہ باری جاری ہے.الزام اور اور ایک کو دکھانے کی میں بھی بہر پونے تین سال مکمل ہیں .پی ڈی ایم کی قبل از وقت عام انتخابات کی خواہش پوری نہیں ہوگی. اسمبلیاں اپنی پانچ سالہ مدت پوری کریں گی۔ الیکشن 2023 میں ہی منعقد ہوں گے البتہ آئینی طریقے ہائوس تبدیلی کے امکانات نہ صرف مگوجوا ہیں ے بڑھتے اا رہے ےو ب
اس وقت وفاقی اور صو بائی حکومتوں کیلئے سب سے بڑا چیلنج عوام دوست بجٹ تیار کرنا ہے۔ قومی اسمبلی میں نئے سال کا بجٹ 11 جون کو پیش ہوگا۔ وزیر خزانہ شوکت ترین ان دنوں بجٹ کی تیاری میں مصروف ہیں۔ انہوں نے بجٹ سے پہلے سیکرٹری خزانہ کا مران علی افضل کو تبدیل کردیا ہے۔وزیر اعظم عمران نے ش۔شات فد د دو دوت ترین کود دو ایک جی ڈی پی گروتھ ریٹ کو بڑھانا اور دوسرا مہنگائی پر قابو پانا۔ جی ڈی پی گروتھ ریٹ جو گزشتہ سال منفی میں چلاگیا تھا اور رواں سال کیلئے تخمینہ 2.9 لگایا گیا تھمحکا قیکا ا تھمحکا ققا ا تھم ب ب م ب موج ےم ب م ب مو ےم ب م ب موج ےمم ب مو م ب مم ب ب ب کرونا وائرس کے تناظر میں یہ اچھی شرح ہے۔
اس گروتھ کے بڑھنے کے اسباب میں برآ مدات میں اضافہ ایف بی آر نے پچھلے سال سے کی نسبت 18 فی صد زیادہ ریونیو وصول کیا ہے پہلی مرتبہ ر یو نیو کی وصولی چار ا ر ارب سے بڑھی ہے. اس میں شبہ نہیں کہ اقتصادی اعشاریے بہتری کی نسبت ہیں لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ ابھی تک محنت ابھی تع محنت سے جمع و نت سے جمع کےو نی س بمع کےو نی سے ب ضیدع کےو نی سے ب ضیاع کےو نی سے ب ضیدع کےو نی سے ب د و نی سب ب پاکستان کی معیشت کا سب سے بڑا مسلہ یہ آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہیں سے بڑا مسلہ وہ سر ہیں جو کئی سے خسارے میں کی اداروں میں ریلوے آفس ‘پی آئی اے’ پاکستان اسٹیل ملز’ڈسکوز ‘یوٹلٹی سٹورز کا رپوریشن وغیرہ شامل ہیں.
ان داروں کی نج کاری کیلئے پختہ سیا سی عزم کی ضرورت ہے۔ توانائی سیکٹر کے گردشی قرضہ میں مسلسل اضافہ ہو ر ہا ہے ۔یہ ملکی معیشت کیلئے رسنے زخم ہے جس کا سر جری کے بغیر کنوئی کے بغیر کنوئی بغیر کنوئی ل دوسرا ایشو 18 ویں تر میم کے بعد بھی وفاق میں بھاری انتظامی انفرا سٹرکچر ہے۔ جو سبجیکٹ صوبوں کو چلے گئے ہیں ان کی وزارتیں اب بھی نئے ناموں سے کام کررہی ہیں۔ اس وقت وفاق میں 40 وزارتیں ہیں جنہیں 20 سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔ وفاقی کابینہ کی تعداد بھی 51 ہے جسے نصف ہونا چاہئے۔ ای گورننس اور ڈیجیٹل ورکنگ کے بعد سپورتنگ سٹاف میں 50 فیصد کمی ہونی چاہئے۔ وفاقی ملازمین کی منظو شدہ پوسٹوں کی تعداد کم کی جا ئے البتہ ان کی تنخواہیں بہتر کی جائیں۔
سرکاری گاڑیوں کا غلط استعمال روکا جا ئے۔ مو نا ٹائزیشن کے با وجود کاری گاڑی لائونس بھی لیتے ہیں ۔کابینہ نے اور سمریاں پہلی ڈیجیٹل کی ہیں جو کا غذات چ ترسیل ہر وزارت اور وفاقی محکمہ کو اس کی تقلید کرنی چاہئے۔ جدید آئی ٹی کے دور میں تمام وزارتوں ‘دویژن اور وفاقی محکموں میں پیپر لیس انوائرمنٹ یقینی بنایا جا ئے۔ اس سے جہاں کروڑوں روپے کی بچت ہوگی وہاں وقت کی بھی بچت ہوگی اور شفافیت آئے گی۔ فائل کی موومنٹ میں تاخیر اور اس کے غائب ہونے شکایت ختم ہوگی۔بہر حال اب تک جانب سے حکومت پپ اود حکومت پر اود م ومت پر ساود م دومت پر ساود م بڑرد تہر
ضروت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اب اپوزیشن کے ساتھ اپنے رویہ پر نظر ثانی کریں۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے اپنی پہلی تقریر میں حکومت کو میثاق معیشت کی پیش کش کی تھی جسے قبول نہیں کیا گیا۔ اب بھی وقت ہے کہ وزیر خزانہ شوکت ترین کو یہ ٹا سک د یا جا ئے وہ میثاق معیشت پر اپوزیشن سے مذاکرات کریں۔ ملک کی سیا سی قیادت کو کم از کم معاشی پالیسیوں پر اتفاق پیدا کرنا چاہئے تاکہ حکومات یقیبدیل یہو ات تدل میںو ع صن ست میں ع اس سے سر مایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہو گا۔دوسرا ایشو مہنگائی کا ہے۔ وزراء جو بھی کہیں یہ حقیقت ہے کہ مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔
نئے بجٹ میں نئے ٹیکس لگانے سے گریز کیا جا ئے۔ ٹیکس چوروں کو ٹیکس نیٹ میں لا یا جا ئے۔ ملک میں مقامی طور پر سگریٹ بنا نے والی کمپنیوں سے ٹیکس وصول کیا جا ئے اور کے سرپرستوں کو بے نقاب کیا ا نجکاری کے عمل کو تیز کیا جا ئے۔ سی پیک کے تحت صنعتی زونز کے قیام پر تیزی سے کام کیا جا ئے۔ درآ مدی بل کم کرنے کیلئے خوردنی تیل اور پیٹرولیم مصنوعات کی پیداوار بڑھانے پر تاوجہ دی ئے اوئیںد ر م با ںد سر م ت ور سر م تور زرعی شعبہ پر مز ید توجہ دی جا ئے ۔برآ مدات میں مزید اضافہ کیا جا ئے کا سب سے بڑ اچیلنج ہی مہنگائی ہے۔ قاب ر قنب مہنگائی کی وجہ سے ہی عوام میں پی ٹی آئی کا گراف کم ہوا ہے۔ ضمنی انتخابات میں اس کے امیدواروں کی شکست کی وجہ مہنگائی ہے۔
معاشی اعشاریے جتنے بھی ا چھے ہوں اصل بات یہ ہے کہ اس کے ثمرات عام آ دمی تک پہچنے چاہئیں۔ وزیر اعظم کی سیا سی محاذ پر خوش قسمتی ہے کہ پی ڈی ایم تقسیم ہوگئی ہے۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کی واپسی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دونوں جانب انا آڑے آ رہی ہے۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے البتہ یہ راستہ نکالا ہے کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتیں مل کر چلیں۔ یہ پیپلز پارٹی کی سوچ کی کا میابی ہے۔ ابتدا ء سے ہی پیپلز پارٹی نے پختہ سیا سی سو چ کا مظاہرہ کیا ہے۔
وزیر اعظم کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ بجٹ پاس کرالیا جا ئے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ بجٹ پاس کرانے میں کا میاب ہو جائیں گے۔ پارٹی دھڑے انہیں بجٹ میں مطالبات تسلیم کرانے کیلئے بلیک میل کریں گے۔اتحادی جماعتیں بھی ہر سا ل کی طائیںح مطال ات ل بجٹ پاس کرانا ایک مشکل مرحلہ ہے اگر وزیر اعظم اس مرحلہ کو عبور بھی کرگئے تو کے بعد انہیں الن ہائائا ن اسٹیبلشمنٹ اور حکومت پہلے کی طرح ایک پیج پر نہیں ہیں۔ کچھڑی پک رہی ہے لیکن ڈیز ائن کیا ہوگا یہ صرف آ رکیٹکٹ کو پتہ ہے۔