احسان دانش سے کسی مشاعرہ کے مہتمم نے التجا کی کہ ہم ایک مشاعرہ کررہے ہیں ، اس میں شامل ہوکر ممنون فرما ۔ممنون فرما ۔ممنون فرما ۔ممنون فرما ۔ممنون فرما ۔ممنون فرما۔ احسان نے پوچھا: ” معاوضہ کتنا ملے گا? ” مہتمم نے نہایت انکساری سے جواب دیا: ” آپ اس مشاعرے میں معاوضے کے بغیر فرما کمترین کو شکر گزار فرمائیں ” احسان نے اس کی انکساری سے قطعا متاثر نہ ہوتے ہوئے. کاروباری انداز میں کہا: ” بندہ نواز! آپ کو ممنون فرمانے میں مجھے کوئی اعتراض نہ تھا اور میں کسی کے بغیر آپ کے مشاعرےمیں چلا جاپیٹمی ، بشوچ اتیب بچوری م، ست ر ر آپ خود ہی غور فرمائیے قبلہ کہ گھوڑا گھاس سے کرنے لگے تو کیا آپ کے شکریے پر زندہ رہ سکے گا ”۔
…… Ö ……
راولپنڈی میںمشاعرہ تھا۔ لاہور سے کچھ شعراء کو مدعو کرنے کے لئے منتظمین ، احسان دانش سے ملے۔ انہوں نے سوال کیا: ” آپ کتنے پیسے دے سکیں گے? ” منتظم نے کہا: ” آپ کو تین سو روپے دئیے جاسکیں گے, زیادہ سے زیادہ معاوضہ اسی رقم کو قبول فرماتے ہوئے خان بہادر, حفیظ جالندھری نے بھی شمولیت کا وعدہ فرمایا ہے ”۔
” حضرت! کہاں خان بہادر اور کہاں ایک مزدور شاعر! لیکن بندہ نواز ، میں اپنے مقام سے کسی قیمت پر نہیں گرنا چاہتا اور پانچ سو روپے سے پائی کم نہ لوں گا۔ میں بہت چھوٹا اور حفیظ صاحب لاکھ بڑے شاعر سہی, یاد رکھئے, دودھ کتنی مفید اور ہے, لیکن گلی گلی میں فروخت ہے اور شراب انتہائی اور مہلک ہونے کے باوجود اپنے مقام ہی پر بکتی ہے ”.
…… Ö ……
ایک محفل میں, جہاں عطش درانی بھی شریک تھے, جہانگیر نے سید عشرت زیدی کی وفات خبر سناتے ہوئے احسان دانش سے کہا: ” جوش صاحب تو ضرور اس کے جنازے میں آئے ہوں گے? ” اس پر احسان صاحب چہک کر ‘ ‘اونہہ! وہ شخص تو اپنے جنازے پر نہ آئے گا ، عشرت کے جنازے پر اسے کیا خاک آنا ہے؟ ”
اسی محفل میں کسی جھوٹے شخص کا ذکر چھڑا تو احسان دانش فرمانے لگے: ” اجی اس کی کیا بات کرتے ہیں, شخص تو صرف اتنا جھوٹ بولتا ہے, جتنا نمک میں آٹا! ” ساری محفل اس نئی ترکیب ” نمک میں آٹا ” کو سن کر کشتِ زعفران بن گئی۔
…… Ö ……
ڈاکٹر تاثیر اور احسان دانش ریل میں سفر کررہے تھے۔ ایک اسٹیشن پر تاثیر کے ایک دوست اسی ڈبے میں ہوئے.تاثیر نے ان سے احسان دانش کا کراتے ہوئے کہا کہ آپ ہیں کے مشہور شاعر, مصور فطرت, شاعر مزدور, حضرت دانش کاندھلوی. اس دوست نے پوچھا وہی ، جومزدوروں کے بارے میں نظمیں لکھتے رہتے ہیں۔ میں نے کہا جی ہاں وہی۔ وہ دوست کہنے لگا: ” خدا کی قسم! ان کی نظمیں پڑھ کر یہ جی چاہتا ہے کہ کو اٹھتے ہی ہر مزدور کے سر پر سو جوتے لگائے جائیں ”۔
…… Ö ……
شروع میں احسان دانش, اپنا نام احسان بن دانش لکھا کرتے تھے (یعنی پسر دانش, جو ان کے والد کا نام) ایک مشاعرے میں (جب احسان ابھی زیادہ مشہور نہیں ہوئے تھے) ان کی ملاقات ایک اور شاعر سے ہوئی, انہوں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے اپنا نام احسان بن دانش بتایا۔ اس پر وہ صاحب بولے: ” تخلص تو میرا بھی احسان ہے ، لیکن الحمدللہ میں ” بن دانش ” نہیں ہوں۔ غالباً اسی کے بعد احسان نے ” بن ” کا لفظ نام سے نکال اور نام احسان دانش ہوگیا۔